Add To collaction

نکلیں حصارِ خوباں سے ہم تو مر ہی جائیں

 

خوابوں کی ہم نے پالیں ہیں کہکشائیں کتنی

سوچوں کے شہر میں دیکھی ہیں فضائیں کتنی

 

وہ اک عمل بظاہر لیکن غلط نہیں تھا

پاداش میں اُسی کی پائیں سزائیں کتنی

 

ایندھن کے ختم ہونے سے ہی دیا بجھا تھا

پر اس کی تھیں عدو ناجانے ہوائیں کتنی

 

نکلیں حصارِ خوباں سے ہم تو مر ہی جائیں

یہ کر گئیں شرارت ہم سے وفائیں کتنی

 

کوئی ہو ابنِ سینا دیکھے جو نبض میری

کچھ تو پتہ چلے تہ میں ہیں ادائیں کتنی

 

اعجاز کب تلک رہنا ہے مجھے سرا میں

منزل کہاں ہے قسمت میں ہیں بلائیں کتنی

   6
1 Comments

Raziya bano

26-Aug-2022 02:50 PM

نائس

Reply